جیسے جیسے اس کائنات کو اور
اس سے متعلق پیچیدہ نظام کو سمجھا جارہا ہے ویسے ویسے
انسان ربّ کائنات کے اُس حکم کی معنویت اور ضرورت کو سمجھتا جارہا ہے
کہ اس نظام میں خلل نہ ڈالو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ حال ہی میں
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں نئے ہزارہ میں
انسانیت کے لئے اہم خطرات میں ماحولیاتی آلودگی کو
بھی شامل کیاگیا۔ ۱۶/فروری
۲۰۰۵/ کو ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کا
بین الاقوامی معاہدہ ”کیوٹوپروٹوکول“ نافذ ہوگیا۔
جس کے تحت صنعتی ممالک کو ۲۰۱۲/ تک فضا کو گرم کررہی
”گرین ہاؤس گیسوں “ کا اخراج 5.2% کم کرنا ہوگا۔ مگر ستم ظریفی
یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے
والے دو بڑے ملکوں امریکہ اور آسٹریلیا نے اس معاہدہ پر دستخط
کرنے سے انکار کردیا۔ جبکہ تنہا امریکہ ہی دنیا بھر
کی آلودگی کا 27-30% حصہ پیداکرتا ہے۔ امریکہ دنیا
کی آبادی کا 4.2% ہے مگر پٹرول، کوئلہ، گیس کی کھپت میں
اس کا حصہ 30% ہے۔ اس کے برعکس جنوبی ایشیا آبادی
کا 22.4% ہے مگر اُس کا اس کھپت میں حصہ محض 2%ہے۔
ماحولیاتی / فضائی
آلودگی کا مسئلہ دن بدن سنگین نوعیت اختیار کرتا جارہا
ہے، دنیا کے 6 ارب انسان اور 11 لاکھ دیگر حیونات اور نباتات ،
اس کائنات میں کار فرما مختلف قدرتی عوامل (بادل، بارش، گرمی،
سردی، ہوا) خطرناک طور سے متاثر ہورہے ہیں۔ کل کائنات ایک
مکمل وحدت ہے۔ اس میں کارفرما نظام باہم ایک دوسرے سے مربوط اور
بندھا ہوا ہے۔ مگر نظریہٴ وطن پرستی ”نیشنلزم“ کی
لعنت کے طفیل ہم نے اس کل کو 171 سے زائد ٹکڑوں میں تقسیم کردیا
اور اس طرح ایک عملی وحدت کو ہم نے 171 مفادات میں بانٹ دیا۔
ہر ٹکڑا کائنات کو صرف اپنے فائدہ کے لحاظ سے استعمال کرنا چاہتا ہے اور زیادہ
طاقت ور ممالک اور ان پر قابض حکمراں ٹولہ دنیا کے وسائل کو صرف اپنے مفاد میں
بے دریغ استعمال کرنے کو ہی ”ملکی مفاد“ National Intrest کا نام دیتے
ہیں۔ اس کے بے دریغ وسائل کی لوٹ اور استعمال کے لئے
انھوں نے نہایت ظالمانہ، مفاد پرست، غیر سائنسی رویہ اپنایا
ہوا ہے۔ فائدہ صرف چند طاقتوں کا ہے مگر سزا اور بربادی پورے کرئہ ارض
کے ہر حیوان اور نباتات کو بھگتنی پڑرہی ہے۔
مسئلہ کیا ہے؟
مسئلہ کی سنگینی سمجھنے
کے لئے اس عمل کو سمجھنا ضروری ہے جس کے تحت یہ فساد فی الارض پیدا
ہورہا ہے۔ کرئہ ارض کے چاروں طرف خالق کائنات نے فضا میں 15-35 کلو میٹر
اوپر ایک ہوائی حفاظتی پرت ”اوزون گیس“ کی بنائی
ہے۔ جس کی وجہ سے سورج اور خلاء کی نقصاندہ شعاعیں اور
گرمی زمین کی فضا میں داخل نہیں ہوسکتیں۔
مگر پچھلے کچھ سالوں میں دنیا بھر میں پٹرول، گیس، کوئلہ
کے بے دریغ استعمال نے فضلہ کے طور پر جو گیس خارج کی ہیں
اس کے علاوہ ایئرکنڈیشن تکنیک اور فریج کی تکنیک
کے استعمال سے جو ”کلوروفلورو کاربن“ خارج ہورہا ہے اس نے اس حفاظتی کور کو
پتلاکردیا ہے۔ پچھلے دو تین دہائیوں میں ان نقصاندہ
گیسوں کا اخراج 1.5 سے بڑھ کر 2.8P.P.M. اور 2.54 ہوگیا
ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار فضا میں
پچھلے 440000 چار لاکھ چالیس ہزار سال میں سب سے زیادہ
ہے۔ 1950 میں ڈاکٹر فورمین نے سب سے پہلے آگاہ کیا کہ
اوزون کی پرت پتلی ہورہی ہے۔ 1980 میں ڈاکٹر فورمین
نے بتایا کہ انٹارکٹیکا پر یہ پرت بہت پتلی ہوگئی
ہے۔ انھوں نے کہا موسم بہار میں یہ پرت 50560% تک کم ہوجاتی
ہے۔ 1985میں یہ تحقیقی رپورٹ سائنسی رسالہ ”نیچر“
میں شائع ہوئی تو دنیا سکتہ میں آگئی۔ انھوں
نے بتایا کہ انٹارکٹیکا کے اوپر اس پرت میں چھید ہوگیا
ہے جس کی لمبائی امریکہ کے برابر اور گہرائی ایورسٹ
کے برابر ہے۔ 2000میں امریکی سائنسداں مائیکل کیریلونے
بتایا کہ اس چھید کا دائرہ 8.86 کروڑ مربع کلومیٹر ہے جو امریکہ
کے کل رقبہ کا تین گنا ہے۔ دوسرے سائنسدانوں نے انکشاف کیاکہ
1999-2000 میں اس چھید میں 10 لاکھ مربع کلو میٹر کی
بڑھوتری ہوئی ہے۔ اس کے نتیجہ میں سورج کی
نقصان دہ شعاعیں اور گرمی جو اس حفاظتی غلاف سے واپس ہوجاتی
تھیں وہ فضا میں داخل ہورہی ہیں۔ اس کا کچھ حصہ زمین
جذب کرلیتی ہے باقی کو وہ واپس خلا کی طرف موڑ دیتی
ہے۔ یہیں اصل مسئلہ پیدا ہوتا ہے جب اس واپس ہوتی
گرمی کو فضا میں موجود یہی گرین ہاؤس گیس (جو
صنعتی ممالک پیدا کررہے ہیں) اپنے اندر جذب کرلیتی
ہیں۔ یعنی جو گرمی واپس ہونی چاہئے تھی
وہ فضا میں قید کرلی گئی۔ اور یہ عرصہ سے اکٹھا
ہورہی گرمی دھیرے دھیرے پوری دنیا کا درجہ
حرارت بڑھا رہی ہے جو درجہ حرارت معمول سے زیادہ ہے۔ اس بڑھی
گرمی کو عالمی حدت Global Warming کہا جارہا
ہے۔ دنیا کا درجہ حرارت پچھلے دو سو سالوں میں .6oc ڈگری سینٹی
گریڈ بڑھا ہے ، جو اگلے 100 سالوں میں .4oc 1 سے لیکر .8oc 5 تک بڑھ سکتا
ہے۔ ورلڈ لائف فنڈ کی رپورٹ کے مطابق اگلے 20 سالوں میں ہی
دنیا کا درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ جائے گا۔ ایک طرف تو
خطرناک گیسوں کا اخراج بڑھ رہا ہے، دوسری طرف اِن گیسوں کے مضر
اثرات کو جذب کرنے والے جنگلوں کا رقبہ بھی خطرناک تیز رفتار سے کم
ہورہا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے امیزن کے جنگل جو برازیل میں
واقع ہیں اس کا رقبہ ترقی کی بھینٹ چڑھ کر دن رات کم
رہاہے۔
امریکہ نے اپنے مجرمانہ رویہ
کے لئے یہ دلیل دی کہ یہ بڑھتی ہوئی حدت حقیقی
نہیں ہے اور اِس کے مضر اثرات نہیں ہوتے۔ مگر حال ہی میں
8 آرکٹک ممالک امریکہ، کنیڈا، روس، ڈنمارک، آئس لینڈ، سوئڈن،
ناروے اور فن لینڈ کے ذریعہ کرائے گئے ایک مشترکہ تحقیق
نے جس میں 300 ماہرین نے حصہ لیا اور جسے مکمل ہونے میں
چار سال لگے بتایا کہ اگلے 100 سالوں میں آرکٹک کی برف کا
50-60% حصہ ختم ہوجائے گا۔ ایک دوسرے مطالعہ کے مطابق 2070 تک قطب
شمالی پوری طرح برف سے محروم ہوجائے گی۔ اور اس برف کے پگھل
کر پانی بننے سے سمندر میں پانی کی سطح 10-90 سینٹی
میٹر تک بلند ہوجائے گی۔ مندرجہ بالا تحقیق میں بتایاگیا
کہ آرکٹک علاقہ کا درجہٴ حرارت باقی دنیا کے مقابلہ دوگنی
تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اور 2100تک یہ 4-7ڈگری سلیس
تک ہوسکتا ہے۔ الاسکا اور سائبریا کا درجہٴ حرارت پہلے ہی
2-3ڈگری سلیس بڑھ چکا ہے۔ امریکہ میں ورجینیا
میں واقع ”پیونٹر آف گلوبل وارمنگ“ کے مطالعہ میں بتایاگیا
ہے کہ قطب جنوبی پرانٹارکٹکا کے برفانی گلیشیر کے پگھلنے
سے سطح آب بلند ہوگئی ہے۔ اس عمل کے جاری رہنے سے ساحلی
علاقوں کے بڑے بڑے علاقہ زیر آب آجائیں گے۔ امریکہ نے جرم
کی سنگینی میں اضافہ کرتے ہوئے انٹارکٹکا میں اپنی
ہوس کو تحقیق کے نام پر پورا کرنے کے لیے آمد و رفت کو آسان بنانے کے
لئے جہاں سڑک کی تعمیر کا کام شروع کردیا ہے۔ جس کی
بڑے پیمانے پر مخالفت کے باوجود تعمیر کاکام جاری ہے۔
”اسکریس انسٹی ٹیوٹ آف
اوشنوگرافی“ نامی تحقیقی ادارہ نے اپنی رپورٹ میں
حتمی اور قطعی طور پر ثابت کیا کہ عالمی درجہ حرارت
خطرناک طور پر بڑھ رہا ہے۔ ادارہ کے ذمہ دار ٹم بارنیٹ کے مطابق ہم نے
امریکی اداروں کے ذریعہ اکٹھا کئے گئے سطح سمندر کے درجہ حرارت
کے لاکھوں نمونوں کے کمپیوٹر ریکارڈ کا تجزیہ کیا اور ہم یقینی
طور پر کہہ سکتے ہیں کہ عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اوراس سے دنیا
کے موسم میں غیرمعمولی تبدیلیاں ہوں گی اور
اس کے لئے فطرت نہیں انسان ذمہ دار ہوں گے۔ درجہٴ حرارت میں
اس غیر معمولی بڑھوتری کے نتیجہ میں دنیا میں
مختلف مقامات پر واقع برف کے بڑے بڑے تودہ (گلیشیر) اور برفانی
جھیلیں غیرمتوقع طور پر پگھل کر بے پناہ بربادی کا سبب بن
سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہمالیہ کے اونچائی والے
علاقوں گلیشیروں کے پیچھے برفانی پانی کی بڑی
بڑی جھیلیں بن گئی ہیں۔ درجہ حرارت کے بڑھنے
سے ان جھیلوں کے سامنے رکاوٹ کے طور پر موجود گلیشیر گھل گئے تو
جھیلوں کا پانی آناً فاناً زبردست تباہی پھیلادے
گا۔ اس طرح کے واقعات کا بھارت، بھوٹان اور نیپال میں ہونے کا
شدید خطرہ موجود ہے۔ ایسا ہونے پر پوری پوری آبادی
اور علاقہ صفحہٴ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ صرف نیپال
اور بھوٹان میں ہی ایسے 100جھیلیں ہیں۔
بھارت میں ہمالیہ کے گلیشیر کا پانی شمالی
ہندوستان کی اہم ندیوں کو پانی مہیا کراتا ہے۔ یہ
گلیشیر اگر پگھل کر سکڑرہے ہیں اور برف غیر فطری
طور پر تیزی سے پانی بن رہی ہے تو شروع میں زیادہ
پانی سے اور بعد میں سوکھے سے زبردست تباہیاں اور تبدیلیاں
آسکتی ہیں۔ ہماچل کے باپسا گلیشیر کے ساتھ ایساہی
ہورہا ہے جس سے باپسا ندی میں تبدیلیاں ہورہی ہیں۔
ڈاکٹر سید اقبال حسین اور ان کے گروپ نے ثابت کیا ہے کہ بڑھتے
ہوئے عالمی درجہٴ حرارت سے برف کے پانی بننے کی رفتار تیز
ہوجائے گی اور گلیشیر کا سائز کم ہوتا جائے گا۔
چین میں تحقیقی
ادارہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر یاؤتیندانگ اور اوہیو یونیورسٹی
کے مشترکہ مطالعہ نے ثابت کیا کہ ”زیپو“ نام کے گلیشیر کی
موٹائی پچھلے 30 سالوں میں 100 گز کم ہوگئی ہے۔ دنیا
کے سب سے اونچے میدانوں کے پہاڑوں پر یہ تبدیلیاں ہورہی
ہیں جس کی وجہ سے سطح سمندر سے 11500فٹ کی اونچائی پر نئے
دریا نے جنم لے لیا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ بعد میں
سوکھے کی شکل میں ہی نکلے گا۔ چین کے گلیشیر
دنیا بھر کی کل برف کا 15% ہیں۔ پچھلے 24 سالوں میں
چین کے 46298 گلیشیروں میں 5.5% کی کمی واقع
ہوئی ہے جو 3000 مربع کلو میٹر کے برابر ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں
چین میں عدیم المثال سیلابوں کی وجہ یہی
برف کا غیرمعمولی رفتار سے پگھلنا ہی ہے۔ قراقرم کے علاقہ
میں دنیا کا تیسرا سب سے بڑا گلیشیر ”پروگانگری“
ہے۔ پگھلنے کی موجودہ رفتار یہی رہی تواس سے زبردست
تباہ کاریاں متوقع ہیں۔ 100 سالوں میں یہ گلیشیر
سوکھ جائیں گے، سمندروں میں پانی کی سطح بڑھ جائیں
گی، سیلاب آئیں گے اور سرسبز پہاڑ ریگستان میں تبدیل
ہوجائیں گے۔ آئس لینڈ کے ”توالو“ جزیرہ کی 10000
آبادی کا ملک ختم ہوجائے گا۔ بنگلہ دیش، مالدیپ کے ساحلی
علاقے زیر آب ہوجائیں گے۔ اسی طرح کی تباہ کاریاں
دریائے نیل، میکانگ، یانتزی اور دریائے سندھ
کے ذریعہ بھی واقع ہوسکتی ہیں۔ اس سے بڑے پیمانے
پر نئے قسم کے پناہ گزینوں یعنی ماحولیاتی پناہ گزینوں
کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ عالمی بینک کے ایک پروجیکٹ
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کیمیاوی کھادوں
اور ایندھن کے بڑھتے استعمال سے پچھلے 100 سالوں میں نائٹروجن کا
اخراج 20 ملین ٹن سے بڑھ کر 150ملین ٹن ہوگیا ہے۔ یہ
نائٹروجن زمین کو زرخیز بناتی ہے، مگر جب یہ زمین
سے بہہ کر پانی میں شامل ہوجاتی ہے تو دریاؤں، جھیلوں
اور آبی ذخیروں میں کائی اور آبی گھاس کی غیرمعمولی
کاشت سے آبی ذخیروں کی آکسیجن ختم ہوجائے گی اور
بڑے پیمانہ پر آبی حیوانات خصوصاً مچھلیاں ختم ہوجائیں
گی۔
انسانوں کی اس مجرمانہ کارروائی
نے دیگر بے گناہ حیوانات اور نباتات کے وجود کو بھی خطرہ میں
ڈال دیا ہے۔ ”ورلڈکنزرویشن یونین“ I.U.C.N کے کریگ ہلٹن
ٹیلر کے مطابق 16000 قسم کے حیوانات اور نباتات معدوم Extinct ہونے کے قریب
ہیں۔ اس میں 23 دودھ دینے والے 32 پانی و خشکی
دونوں میں رہنے والے اور 40 کچھوؤں کی اقسام شامل ہیں۔ ان
کے معدوم ہونے کا خطرہ پچھلی کچھ دہائیوں میں 1000گنا بڑھ گیا
ہے۔ برفانی بھالوؤں، تیندؤں، بڑی مچھلیوں خصوصاً
کاڈ اور تیوتا کاوجود بھی شدید خطرہ میں ہے۔
انسانی صحت پر مضر اثرات
ماحولیاتی آلودگی اور
کرم کش ادویہ کے استعمال نے جانوروں اور انسانوں کو بانجھ بنانا شروع کردیا
ہے۔ اترپردیش کے رابرٹس گنج میں ایک سمپوزیم کے
ماہرین نے بتایا کہ مردوں میں کرم منویہ Spermatazo کی تعداد
لگاتار گھٹ رہی ہے۔ 50کی دہائی کے مقابلہ اب یہ آدھی
رہ گئی ہے۔ 1938میں مادہ منویہ میں کرم منویہ
کی تعداد 11.3کروڑ فی ملی لیٹر تھی جو اب گھٹ کر
2002میں 6.2کروڑ رہ گئی ہے۔ فرانسیسی ماہر حیوانیات
پیروزنیٹ کہتے ہیں کہ اگر یہی حالات رہے تو
70-80سالوں میں یہ تعداد گھٹ کر صفر ہوجائے گی تب قدرتی
طریقہ سے بچہ بھی نہیں پیدا ہوں گے۔
DDT کے استعمال سے
انسانوں میں مضر اثرات کے علاوہ پرندوں کے انڈوں کے خول بھی پتلے
ہورہے ہیں۔ ممبئی میں چیلوں کی تعداد کم ہونے
کے پیچھے ان کے ذریعہ ایسے مردہ جانوروں کا استعمال تھا جن کے
گوشت میں زہر ملے مادہ تھے جنھوں نے ان چیلوں کے گروہ بیکار
کردئیے تھے۔ BHCنام کرم کش ادویہ میں سے ایک ہے کے
استعمال سے مچھلیوں کی تولید میں کمی ہوگئی
ہے۔ ہجرت کرکے دور دیشوں میں جانے والے پرندوں کی کم ہوتی
تعداد کے پیچھے بھی ان کے جسموں میں موجود زہریلے مادہ
پرواز کے دوران خون کے ذریعہ دماغ میں اور تولیدی اعضاء میں
پہنچ کر ان کی موت کا باعث ہوتے ہیں۔ جاپانی سائنسداں نے
بتایا کہ ہندوستان سے واپس ہونے والے مہاجر پرندوں میں کرم کش ادویہ
کی سطح بہت اونچی ہوتی ہے۔ بہت سے مضر صحت اور مہلک کیمیاوی
مادہ ہوا،پانی، اشیاء خوردنی کے ذریعہ ہمارے اور دیگر
حیوانات کے جسم میں پہنچ کر نظام اعصاب اور نظام تولید کو متاثر
کرتے ہیں۔ مچھر مارنے والی دواء میلاتھیان اور
وائپرازین یہی کام کررہے ہیں۔ اوزون کی پرت
پتلی ہونے کی وجہ سے جو پچھلے سالوں میں 10%کم ہوئی ہے
آنکھوں میں موتیا بند کی بیماری بڑھ رہی
ہے۔ امریکہ میں اوزون کے 1%نقصان سے .8% سے .7% موتیابند
کے مریضوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ
ثابت ہوچکا ہے کہ اوزون کی پرت پتلی ہونے سے الٹراوائیلیٹ
شعاعوں کی بڑھتی تعداد سے موتیابند کے مریضوں کی
بڑھتی تعداد میں سیدھا تعلق ہے۔
پورے کرئہ ارض کو لاحق ان بھیانک
خطرات کے باوجود امریکہ اور آسٹریلیا جیسے نام نہاد تہذیب
کے ٹھیکیداروں کا رویہ انتہائی مجرمانہ ہے۔ ان خود
غرض طاقتوں کا کہنا ہے کہ ہم اپنی خوشحالی اور اقتصادیات اور
عوام کے معیار زندگی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔
بل کلنٹن نے جس ماحولیاتی معاہدہ کیوٹوپروٹوکول پر دستخط کردئیے
تھے، بش نے حکومت میں آتے ہی اس معاہدہ کو کالعدم قرار دے کر امریکہ
کو اِس سے باہر نکال دیا۔ بش نے اپنے دورہ یوروپ جون 2001کے
دوران کہا تھا ”میں 15یوروپی حکمرانوں کے ساتھ رہا، میں
نے ان کی باتیں غور سے سنیں۔ وہ امریکہ کی
غلطیاں بتارہے تھے۔ میں نے آخر میں ان سے صرف یہ
کہا کہ میں آپ کی تشویش کی قدر کرتا ہوں ، مگر امریکہ
کا موقف یہی ہے کیونکہ یہی امریکہ کے لئے مفید
ہے۔ اس امریکی بے رحمی اور پتھردلی کو نشانہ بناتے
ہوئے ماحولیاتی آلودگی سے معدوم ہوجانے کے خطرہ سے دوچار ملک جزیرہ
آئس لینڈ کے صدر ”سفاتوساپوآگا“ نے کہا کہ اگر آپ نے جلدی کچھ نہ کیا
تو یہ دس ہزار آبادی کا ملک آئندہ دس بیس سالوں میں زیر
آب آجائے گا۔ توالو کے لوگ امریکہ اور آسٹریلیا کی
حرکتوں کی سزا اپنے وجودکی قیمت سے کیوں ادا کریں؟
توالو کے باشندوں کو امریکہ پر کیوں مقدمہ نہیں دائر کرنا
چاہئے۔ یہ ہمارے خلاف مسلسل ہلکی اور مہلک دہشت گردی
ہے۔“
موجودہ دور کے بدترین انسانی
بحران سے دنیا جوبجھ رہی ہے مگر اس مسئلہ کو پیدا کرنے والے
ممالک خصوصاً امریکہ اور آسٹریلیا نے اصل مسئلہ سے دھیان
ہٹانے کے لیے بنیادی مسائل کے حل کے بجائے مصنوعی غیر
حقیقی مسئلہ دہشت گردی، جمہوریت کا قیام، آزادی
کے نام پر پیدا کئے ہیں۔ اور دنیا کا دھیان اصل
مسائل سے ہٹایا جارہا ہے اور ایسے مسئلہ سے دنیا کے 6ارب
انسانوں اور 11لاکھ حیوانات اور نباتات کو ہر وقت خطرہ میں مبتلا
رکھنے والے مسئلہ کی طرف سے دنیا کا دھیان ہٹایاہے۔
تاکہ ان کی لوٹ گھسوٹ اور دوسروں کے وسائل کی لوٹ جاری
رہے۔ تبھی تو دنیا کی آبادی کا 4.2%آبادی دنیا
کے وسائل کا 30%استعمال کرتی ہے۔ اور دنیا میں آلودگی
33%زیادہ پھیلاتی ہے۔ مگر اس کی ذمہ داری
قبول نہیں کرتی۔
ایسی تشویشناک صورت حال
میں دنیا کے تمام سچے بہی خواہوں ، انسانیت کے ہمدردوں کو
ایک ایسے عالمی نظام کی طرف آنا ہوگا جو انسانوں کے
محدود، ناقص اور مفاد پرست رویہ سے متاثر نہ ہوکر اس کائنات کے خالق اور ربّ
کائنات کی ہدایت اور رہنمائی سے فیض یاب ہو۔
جو افراط و تفریط سے پاک ہو، جو کلو وشربو ولا تسرفو (کھاؤ،پیو مگر حد
سے نہ گذرو) کے اصول پر کاربند ہو، جو ہوس و استیصال سے نہیں ضرورت
اور انصاف کو مشعل راہ بنائے، جو زمین کو فساد سے نہ بھرے بلکہ اس کی
اصلاح کرے اور دنیا کے ہر شخص کو امیر ہو یاغریب برابر کے
مواقع اور ذمہ داری کا شریک بنائے۔
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد:
89 ،صفر، ربیع الاول 1426ہجری مطابق اپریل 2005ء